Add parallel Print Page Options

ساؤل کا عمالیقیوں کو تباہ کرنا

15 ایک دن سموئیل نے ساؤل سے کہا ، “میں وہی ہوں جسے خداوند نے تجھے مسح کر کے بنی اسرا ئیلیوں پر بادشاہ بنا نے کے لئے بھیجا ہے۔ خداوند کا پیغام سنو ! خداوند قادر مطلق کہتا ہے : ’جب اسرا ئیلی مصر کے باہر آئے۔ عمالیقیوں نے ان کو کنعان سے جانے کے لئے روکا میں نے دیکھا عمالیقیوں نے جو کیا ہے۔ اب جا ؤ عمالیقیو ں کے خلاف لڑو۔ تم کو مکمل طور سے عمالیقیوں اور اُن کی ہر چیز کو تباہ کرنی چا ہئے۔ کسی چیز کو رہنے نہ دو تمہیں تمام مردوں ، عورتوں اور ان کے بچوں کو مار ڈالنا چا ہئے۔ تم کو ان کی گا ئیں بکریاں، اور اونٹوں اور گدھوں کو بھی مار دینا چا ہئے۔”

ساؤل نے اپنی فوج کو طلائم پر جمع کیا جہاں پر وہ سب ۰۰۰۰،۲۰ ہزار پیدل سپا ہی اور ۰۰۰،۱۰ ہزار آدمی جو یہوداہ سے تھے۔ تب ساؤل شہر عمالیق گیا اور خشک ندی میں گھات لگا یا۔ ساؤل نے قینی کے لوگوں سے کہا ، “چلو جا ؤ عمالیقیوں کو چھوڑ دو تب میں تم لوگوں کو عمالیقیوں کے ساتھ تباہ نہیں کروں گا۔ تم لوگو ں نے اسرئیلیو ں پر مہربانی کی جب وہ مصر سے باہر آئے تھے۔” اس لئے قینی کے لوگوں نے عمالیقیوں کو چھو ڑا۔

ساؤل نے عمالیقیوں کوشکست دی۔ وہ ان سے لڑا اور ان کا پیچھا حویلہ سے شور تک کیا جو مصر کی سرحد پر ہے۔ اجاج عمالیقیوں کا بادشاہ تھا۔ساؤل نے اجاج کو زندہ گرفتار کیا۔ ساؤل نے اجاج کو زندہ چھو ڑا لیکن اجاج کی فوج کے تمام آدمیوں کومار ڈا لا۔ ساؤل اور اسرا ئیلی سپا ہیوں نے ہر ایک چیز کو تباہ کرنا نہیں چا ہا ، اس لئے ان لوگوں نے اجاج اور سب سے اچھے بھیڑوں، مویشیوں اور جو کچھ بھی اچھا تھا اسے زندہ چھو ڑدیا۔ یعنی کہ جانوروں کو جو فائدہ مند تھے اسے زندہ رکھا اور جو کمزور اور بیکار تھے انہیں تباہ کر دیا۔

سموئیل کا ساؤل کے گناہوں کے متعلق کہنا

10 تب سموئیل کو خداوند سے ایک پیغام ملا۔ 11 خداوند نے کہا ، “ساؤل نے میرے کہنے پر عمل کرنا چھو ڑدیا۔ اس لئے میں رنجیدہ ہوں کہ میں نے اس کو بادشاہ بنا یا۔ میں جو کچھ اسکو کہتا ہوں وہ نہیں کر رہا ہے۔” تب سموئیل بہت غصہ میں آیا اور خداوند کو پو ری رات پکا را۔

12 سموئیل دوسری صبح جلد اٹھا اور وہ ساؤل سے ملنے گیا۔ لیکن لوگوں نے سموئیل سے کہا ، “ساؤل یہوداہ میں کرمِل نامی شہر کو گیا۔ ساؤل وہاں اپنی یادگار میں پتھر نصب کرنے گیا۔ساؤل کئی جگہوں کا سفر کرتے ہو ئے آخر کا ر جلجال چلا گیا۔”

اس لئے سموئیل وہیں گیا جہاں ساؤل تھا۔ ساؤل نے ابھی عمالیقیوں سے لی گئی مال غنیمت کا پہلا حصہ ہی نذر چڑھا یا تھا۔ وہ ان چیزوں کو جلانے کی قربانی کے طور پر خداوند کو چڑھا رہا تھا۔ 13 سموئیل ساؤل کے پاس گیا اور ساؤل نے سلام کیا۔ ساؤل نے کہا ، “خداوند تم پر فضل کرے۔” میں نے خداوند کے احکامات کی تعمیل کی۔”

14 لیکن سمو ئیل نے کہا ، “وہ کونسی آواز ہے جو میں سن رہا ہوں۔ میں مویشیوں کی آٰواز سننے کے لئے کیوں ٹھہروں۔”

15 ساؤل نے کہا ، “سپا ہیوں نے انہیں عمالیقیوں سے لیا ہے۔ سپا ہیوں نے بہترین بھیڑ اور مویشیوں کو خداوند کے واسطے جلانے کی قربانی پیش کرنے کے لئے بچا یا ہے۔ لیکن ہم نے اس کے سوا ہر چیز تباہ کر دی ہے۔ ”

16 سموئیل نے ساؤل سے کہا ، “ٹھہرو! میں تجھے بتاؤں گا کہ گذشتہ رات خداوند نے مجھ سے کیا کہا۔”

ساؤل نے جواب دیا” اچھا ! تو کہو کیا اس نے کہا؟”

17 سموئیل نے کہا ، “زمانہ ما ضی میں تم نے سوچا تھا کہ تم اہم آدمی نہیں ہو۔ لیکن پھر بھی تم اسرا ئیل کے خاندانی گرو ہ کے قائد ہو ئے۔ خداوند نے بھی اسرا ئیل پرتمہیں بادشاہ چُنا۔ 18 خداوند نے تمہیں حکموں کے ساتھ باہر بھیجا اس نے حکم دیا ، ’ جا ؤ اور تمام عمالیقیوں کو تباہ کرو۔ وہ بُرے لوگ ہیں ان تمام کو تباہ ہو جا نے دو۔ ان سے لڑو جب تک کہ وہ پو رے مارے نہ جا ئیں۔‘ 19 لیکن تم نے خداوند کی کیوں نہیں سُنی تم نے لوٹ کے مال کو جھپٹ لیا اس لئے تم نے وہ کیا جس کو خداوند نے بُرا سمجھا۔”

20 ساؤل نے سموئیل سے کہا ، “لیکن میں نے خداوند کی اطاعت کی جہاں خداوند نے بھیجا میں وہاں گیا۔ میں نے عما لیقی بادشاہ اجاج کو گرفتار کیا اور عمالیقیوں کو تباہ کیا۔ 21 اور سپا ہیوں نے جلجال سے ان کی بہترین بھیڑیں اور مویشی خداوند اپنے خدا کی قربانی کی نذر کے لئے لیں۔

22 لیکن سموئیل نے جواب دیا ، “خداوند کس چیز سے زیادہ خوش ہو تا ہے۔ جلانے کے نذرانے اور قربانی سے یا خداوند کے احکامات کی فرمانبرداری سے ؟” اس کو قربانی پیش کرنے سے بہتر ہے کہ خدا کی اطاعت کریں۔ خدا کو ایک فربہ مینڈھے کی قربانی دینے سے بہتر ہے کہ خدا کے کہنے کو سنیں۔ 23 خداوند کی فرمانبرداری سے انکار کرنا اتنا ہی خراب ہے جتنا کہ جا دو کا گناہ کرنا اور غیب دانی کرنا ، ضدّی اور مغرور رہنا اتنا ہی بُرا ہے جتنا کہ بُتوں کی پرستش کرنے کا گناہ کرنا۔ تم نے خداوند کے احکامات کی فرمانبرداری سے انکار کرکے ان کا نا فرمان رہا۔ اس لئے خداوند نے تمہیں بھی بادشاہ ہو نے سے ر دکیا۔”

24 تب ساؤل نے سموئیل سے کہا ، “میں گناہ کیا ہوں کیوں کہ میں نے خداوند کے احکامات اور تمہا ری ہدایت کی خلاف ورزی کی۔ اصل میں لوگوں سے خوفزدہ تھا اس لئے میں نے وہ کیا جو انہوں نے چا ہا۔ 25 اس لئے اب میں تم سے استدعا کرتا ہوں میرے گناہوں کو معاف کرو! میرے ساتھ آ ؤ خداوند کی عبا دت کرو۔”

26 لیکن سموئیل نے ساؤل سے کہا ، “میں تمہا رے ساتھ واپس جانا نہیں چا ہتا۔ تم نے خداوند کے احکام سے انکا ر کیا اور اب خداوند تمہیں اسرا ئیل کا بادشاہ ہو نے سے انکا ر کرتا ہے۔”

27 جب سموئیل جانے کیلئے پلٹا ،ساؤل نے سموئیل کا چغہ جھپٹ کر پکڑا اور چغہ پھٹ گیا۔ 28 سموئیل نے ساؤل سے کہا ، “تم نے آج میرا چغہ پھاڑ دیا اسی طرح خداوند نے آج تمہا ری اسرا ئیل کی بادشاہت پھا ڑ دی۔ خداوند نے تمہا رے دوستوں میں سے ایک کو بادشاہت دے دی ہے۔ جو کہ تم سے بہتر ہے۔

29 اس کے علاوہ اسرا ئیل کا خداوند جو ابدلآباد ہے نہ کبھی دھو کہ دیتا ہے اور نہ کبھی اپنا ذہن بدلتا ہے وہ انسان نہیں ہے کہ وہ اپنا ذہن بدلے۔”

30 ساؤل نے جواب دیا ، “ہاں ، میں نے گنا ہ کیا لیکن براہِ کرم میرے ساتھ واپس آؤ۔ بنی اسرا ئیلیوں اور قائدین کے سامنے مجھے عزت دو۔ میرے ساتھ واپس آؤ تا کہ میں خداوند تمہا رے خدا کی عبادت کروں۔ ” 31 سموئیل ساؤل کے ساتھ واپس گیا اور ساؤل نے خداوند کی عبادت کی۔

32 سموئیل نے کہا ، “عمالیقیوں کے بادشاہ اجاج کو میرے پاس لا ؤ۔”

اجاج سموئیل کے پاس آیا۔ اجاج زنجیروں سے بندھا تھا ، “اجاج نے سوچا یقیناً اب موت کا خطرہ ٹل گیا۔”

33 لیکن سموئیل نے اجاج سے کہا ، “تمہا ری تلوار وں نے بچوں کو ان کی ماؤں سے چھینا ہے اس لئے اب تمہا ری ماں کا بچہ نہ رہے گا ” اور جلجال میں سموئیل نے خداوند کے سامنے اجاج کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے۔

34 تب سموئیل رامہ چلا گیا اور ساؤل واپس اپنے گھر جبعہ چلا گیا۔ 35 اس کے بعد سموئیل نے ساؤل کو دوبارہ کبھی زندگی بھر نہ دیکھا۔ سموئیل ساؤل کے لئے بہت رنجیدہ تھا اور خداوند کو بہت افسو س تھا کہ اس نے ساؤل کو اسرا ئیل کا بادشاہ بنا یا۔

سموئیل کی بیت ا للحم کو روانگی

16 خداوند نے سموئیل سے کہا ، “کب تک تم ساؤل کے لئے رنجیدہ رہو گے ؟ میرے یہ کہنے کے بعد بھی کہ میں ساؤ ل کا اسرا ئیل کا بادشاہ ہو نے سے انکار کرتا ہوں تم اس کے لئے رنجیدہ ہو۔ اپنا سینگ تیل سے بھرو او ر بیت اللحم کو جا ؤ۔ میں تم کو یسّی نامی ایک آدمی کے پاس بھیج رہا ہوں۔ یسی بیت اللحم میں رہتا ہے میں اس کے بیٹوں میں سے ایک کو نیا بادشاہ چُنا ہوں۔”

لیکن سموئیل نے کہا ، “میں نہیں جا سکتا اگر ساؤل یہ خبر سنے گا تب وہ مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔”

خداوند نے کہا ، “بیت اللحم جا ؤ اپنے ساتھ ایک بچھڑا لے جا ؤ اور کہو ! ’میں خداوند کو قربانی دینے کے لئے آیا ہوں۔‘ یسی کو قربانی پر مدعو کرو۔ تب میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیا کرنا ہے۔ تمہیں اس آدمی پر جسے میں بتا ؤں گا تیل چھڑکنا چا ہئے۔”

سموئیل نے وہی کیا جو خداوند نے اسے کرنے کو کہا تھا۔ سموئیل بیت اللحم گیا۔ بیت اللحم کے بزرگ ( قائدین ) ڈرسے کانپ گئے وہ سموئیل سے ملے اور پو چھے ، ’کیا آپ صلح کا پیغام لے کر آئے ہیں ؟”

سموئیل نے جواب دیا ، “ہا ں! میں صلح کے خیال سے خداوند کو قربانی نذرکرنے کے لئے آیا ہوں۔ اپنے آپ کو تیار کرو اور آؤ میرے ساتھ قربانی پیش کرنے میں حصہ لو۔” تب سموئیل نے یسّی کو اور اس کے بیٹوں کو پاک کیا اور قربانی کی نذرکے لئے مدعو کیا۔

جب یسیّ اور اس کے بیٹے آئے تو سموئیل نے الیاب کو دیکھا ، “سموئیل نے سو چا یقیناً یہی وہ آدمی ہے جسے خداوند نے چنا ہے۔ ”

لیکن خداوند نے سموئیل سے کہا ، “الیاب طویل القامت اور خوبصورت ہے۔ لیکن اس کے بارے میں ایسا مت سوچو کہ وہ لمبا ہے۔ خدا ان چیزوں کو نہیں دیکھتا جو لوگ دیکھتے ہیں۔ لوگ صرف آدمی کا ظا ہر دیکھتے ہیں لیکن خداوند اس کے دل کو دیکھتا ہے۔ الیاب صحیح آدمی نہیں ہے۔”

تب یسی نے اس کے دوسرے لڑکے ابینداب کو بُلا یا۔ ابینداب سموئیل کے پاس آیا لیکن سموئیل نے کہا ، “نہیں یہ وہ آدمی نہیں جسے خداوند نے چُنا ہے ”

تب یسی نے سمّہ سے کہا کہ وہ سموئیل کے پاس آئے لیکن سموئیل نے کہا ، “نہیں خداوند نے اس آدمی کو بھی نہیں چُنا ہے۔ ”

10 یسّی نے اپنے ساتوں بیٹوں کو سموئیل کو دکھا یا لیکن سموئیل نے یسی سے کہا ، “خداوند نے ان میں سے کسی کو بھی نہیں چُنا ہے۔”

11 تب سموئیل نے یسی سے کہا ، “کیا تمہا رے سارے بیٹے ہیں ؟ ”

یسی نے جواب دیا نہیں میرا اور بھی ایک چھو ٹا بیٹا ہے لیکن وہ باہر ہے اور بھیڑوں کی دیکھ بھا ل کر رہا ہے۔

سموئیل نے کہا ، “اس کو بُلا ؤ ، یہاں لے آؤ ہم کھانے کے لئے نہیں بیٹھیں گے جب تک وہ یہاں نہ آئے۔”

12 یسی نے کسی کو اپنے چھو ٹے بیٹے کو بُلانے بھیجا۔ یہ بیٹا سُرخ چہرہ وا لا نوجوان تھا اور اسکی آنکھیں خوبصورت تھیں دراصل وہ بہت ہی خوبصورت تھا۔ خداوند نے سموئیل سے کہا ، “اٹھو اور اسے مسح (چنو) کرو وہ شخص یہی ہے۔”

13 سموئیل نے سینگ لیا جس میں تیل تھا اور خاص تیل کو یسی کے چھو ٹے بیٹے پر اس کے بھا ئیوں کے سامنے چھڑکا۔ خداوند کی رُوح عظیم طاقت کے ساتھ اس دن داؤد پر آئی۔ تب سموئیل را مہ کو اپنے گھر واپس گیا۔

بدروح سے ساؤل کو پریشانی

14 خدا وند کی روح نے ساؤل کو چھوڑا تب خدا وند نے ایک بد روح کو ساؤل پر بھیجا جس نے اس کو بہت تکلیف دی۔ 15 ساؤل کے خادموں نے اس کو کہا ، “خدا کی طرف سے ایک بد روح تم کو پریشان کر رہی ہے۔ 16 ہم کو حکم دو تاکہ ہم کسی کو تلاش کریں جو بربط بجاتا ہو۔ اگر بد روح خدا وند کی طرف سے تم پر آتی ہے تو یہ آدمی جب بربط بجائے گا اور وہ بد روح تم کو چھو ڑ دیگی اور تم خود کو بہتر محسوس کروگے۔”

17 اس لئے ساؤل نے اپنے خادموں سے کہا ، “جاؤ اور ایک ایسے آدمی کو تلاش کرو جو اچھی طرح بربط بجا سکے اور اسے میرے پاس لاؤ۔”

18 خادموں میں سے ایک نے کہا ، “ایک آدمی کو میں جانتا ہوں جس کا نام یسّی ہے بیت اللحم میں رہتا ہے۔ میں نے یسّی کے بیٹے کو دیکھا وہ اچھی طرح سے بربط بجا سکتا ہے۔ وہ بہادر بھی ہے اور اچھی طرح لڑ تا ہے۔ وہ ہوشیار ہے اور خوبصورت ہے اور خدا وند اسکے ساتھ ہے۔”

19 اس لئے ساؤل نے یسّی کے پاس قاصد بھیجے۔ انہوں نے یسّی سے کہا ، “تمہارا ایک لڑ کا داؤد نام کا ہے جو تمہاری بھیڑوں کی رکھوالی کرتا ہے اس کو میرے پاس بھیجو۔”

20 پھر یسّی نے ساؤل کے لئے کچھ تحفہ تیاّر کئے۔ یسّی نے ایک گدھا کچھ روٹی اور مئے کی بوتل اور بکری کا بچہ لیا۔ یسّی نے وہ چیزیں داؤد کو دیں اور اس کو ساؤل کے پاس بھیجا۔ 21 اس طرح داؤد ساؤ ل کے پاس گیا اور اس کے سامنے کھڑا ہوا۔ ساؤل نے داؤد کو بہت چاہا پھر ساؤل نے داؤد کو اپنا مدد گار بنا لیا۔ 22 ساؤل نے یسّی کو خبر بھیجی کہ داؤد کو میری خدمت کے لئے رہنے دو میں اس کو بہت پسند کرتا ہوں

23 جب کسی بھی وقت خدا کی طرف سے بد روح ساؤل پر آتی تو داؤد اسکی بربط لے کر بجاتا۔ بد روح ساؤل کو چھوڑ دیتی اور وہ بہتر محسوس کرتا۔

جو لیت کا اسرائیلیوں کو للکارنا

17 فلسطینیوں نے اپنی فوجوں کو ایک ساتھ جنگ کے لئے جمع کئے۔ وہ یہوداہ میں شوکہ میں ملے۔ انکا خیمہ شوکہ اور غریقہ کے درمیان افسد میم شہر میں تھا۔

ساؤل اور اسرائیلی سپاہی اکٹھے ہو ئے۔ انکا خیمہ ایلہ کی وادی میں تھا۔ اسرائیل کے سپاہیوں نے فلسطینیوں کے خلاف لڑ نے کے لئے صف آرائی کی۔ فلسطینی ایک پہاڑی پر تھے۔ اسرائیلی دوسری پہاڑی پر تھے اور دونوں کے درمیان ایک وادی تھی۔

فلسطینیوں کے خیمہ میں ایک غیر معمولی سپاہی تھا اسکا نام جو لیت تھا۔ وہ جات کا تھا۔ وہ نو فیٹ سے زیادہ اونچا تھا۔ وہ فلسطینی خیمہ سے باہر آیا۔ اس کے سر پر کانسے کا ٹوپا (ہلمیٹ) تھا۔ وہ مچھلی کی کھال نُما زرہ بکتر پہنے ہوئے تھا۔ یہ زرہ بکتر کانسے کا تھا اور ۱۲۵ پاؤنڈ وزنی تھا۔ جو لیت اپنے پیروں پر کانسے کے حفاظتی زرہ بکتر پہنے ہوئے تھا۔ اس کے پاس کانسے کا بھا لا تھا جو اسکی پیٹھ پر بندھا ہوا تھا۔ جو لیت کے بھا لے کی لکڑی والا حصہ جو لاہے کی لکڑی کے ڈنڈا کی طرح بڑا تھا۔ بھا لے کا پھل پندرہ پاؤنڈ وزنی تھا۔ جو لیت کے مدد گار اس کے سامنے ڈھال کو لئے چل رہے تھے۔

ہر روز جولیت باہر آتا اور اسرائیلی سپاہیوں کو پکار کر للکارتا ، “تمہارے سپاہی قطار باندھے کیوں جنگ کے لئے تیّار کھڑے ہیں ؟ تم ساؤل کے خادم ہو۔ میں فلسطینی ہوں اس لئے ایک آدمی کو چنو اور اس کو مجھ سے لڑ نے کے لئے بھیجو۔ اگر وہ آدمی مجھے مار دے تو ہم فلسطینی تمہارے غلام ہونگے۔ لیکن میں اگر تمہارے آدمی کو مار دوں تب میں جیتا اور تم ہمارے غلام ہوگے تم کو ہماری خدمت کرنی ہوگی۔”

10 فلسطینیوں نے یہ بھی کہا ، “آج میں یہاں کھڑا ہوں اور اسرائیلی فوجوں کو رسوا کر رہا ہوں اور للکار رہا ہوں۔ اپنے درمیان میں سے ایک آدمی کو چنو اور میرے ساتھ لڑ نے کے لئے اسے بھیجو۔”

11 ساؤل اور اسرائیلی سپاہیوں نے جو لیت نے جو کہا وہ سُنا اور وہ بہت ڈر گئے۔

داؤد کا محاذ جنگ پر جانا

12 داؤد یسّی کا بیٹا تھا۔ یسّی بیت اللحم کے افرات خاندان سے تھا۔ یسّی کے آٹھ بیٹے تھے۔ ساؤل کے زمانے میں یسی بوڑھا آدمی تھا۔ 13 یسی کے تین بڑے بیٹے ساؤل کے ساتھ جنگ پر گئے تھے۔ پہلا بیٹا الیاب تھا۔ دوسرا بیٹا ابینداب تھا اور تیسرا بیٹا سمّہ تھا۔ 14 داؤد یسی کا سب سے چھو ٹا بیٹا تھا۔ تین بڑے بیٹے ساؤل کی فوج میں پہلے ہی سے تھے۔ 15 لیکن داؤد نے کبھی کبھی ساؤ ل کو چھو ڑ کر بیت اللحم میں اپنے باپ کی بھیڑوں کی رکھوالی کر نے کے لئے چلا جاتا۔

16 فلسطینی ( جو لیت ) ہر صبح و شام باہر آتا اور اسرائیلی فوج کے سامنے کھڑا رہتا۔ جو لیت اس طرح اسرائیل کا چالیس دن تک مذاق اُڑا تا رہا۔

17 ایک دن یسی نے اپنے بیٹے داؤد سے کہا ، “یہ پکے اناج کی ٹوکری لو اور یہ دس روٹی کے ٹکڑے اپنے بھائیوں کے لئے خیمہ میں لے جاؤ۔ 18 اور دس ٹکڑے پنیر کے بھی افسروں کے لئے جو تمہارے بھائیوں کے ۱۰۰۰ سپاہیوں پر حاکم ہیں لے جاؤ۔ دیکھو تمہارے بھا ئی کیا کر رہے ہیں۔ اس لئے کچھ ایسی چیزیں لاؤ جس سے مجھے پتہ چلے کہ تمہارے بھا ئی ٹھیک ٹھاک ہیں۔ 19 تمہارے بھا ئی ساؤل کے ساتھ ہیں اور تمام اسرائیلی سپاہی ایلہ کی وادی میں ہیں۔ وہ وہاں فلسطینیوں کے خلاف لڑ تے ہیں۔”

20 صبح سویرے داؤد نے دوسرے چرواہے کو بھیڑوں کی رکھوالی کرنے کو دی۔ داؤد نے کچھ کھانے کو لیا اور یسّی کے حکم کے مطا بق ایلہ کی وادی کی طرف نکل پڑا۔ جب داؤد خیمہ میں پہونچا تو سپا ہی جو جنگ کے لئے با ہر نکل رہے تھے جنگ کے لئے للکارا۔ 21 اِسرائیلی اور فلسطینی قطار باندھے جنگ کے لئے تیّار تھے۔

22 داؤد نے کھا نے اور دوسر ی ا شیاء کو اس آدمی کے پاس چھو ڑا جو رسدوں کی نگہبانی کرتا تھا۔ اور وہ اس جگہ دوڑا جہاں اسرائیلی سپا ہی تھے۔ اس نے اپنے بھا ئیو ں کی خیر و عافیت کے متعلق پو چھا۔ 23 جب وہ اپنے بھا ئیوں سے باتیں کر رہا تھا۔ فلسطینی فوج کا بہادر سپا ہی جو لیت جو کہ جات کا تھا ، فلسطینی فوجی صفوں سے نکل کر وہاں آیا۔ وہ اسرائیلیوں کو پھر للکار رہا تھا کسی آدمی کو میرے ساتھ لڑ نے کو بھیجو۔ داؤد نے اسکی باتوں کو سُنا۔

24 تا ہم جب اسرائیلی سپا ہیوں نے اسے دیکھا تو اس کے پاس بھا گے کیوں کہ وہ لوگ اس سے خوفزدہ تھے۔ 25 ایک اسرائیلی آدمی نے کہا ، “کیا تم نے اس کو دیکھا ہے ؟ ” دیکھو اس کو وہ جولیت ہے۔ وہ باہر آتا ہے اور اسرائیلیوں کا بار بار مذاق اُڑا تا ہے۔ جو کوئی اسکو ماریگا امیر ہو جائیگا۔ بادشاہ ساؤل اسکو بہت ساری رقم دیگا۔ اور اپنی بیٹی کی شادی بھی اس سے کرائے گا جو جولیت کو مار ڈا لے گا۔ اور ساؤل اس آدمی کے خاندان کو بھی اسرائیل میں آزاد رکھے گا۔” [a] 26 داؤد نے ان آدمیوں سے پو چھا ، جو اسکے قریب کھڑے تھے۔“ وہ کیا کہتا ہے ؟ اس فلسطینی کو ہلاک کر نے کا اور اس بے عزتی کا بدلہ لینے کا کیا انعام ہے ؟ آخر یہ جو لیت ہے کون ؟ وہ تو صرف ایک اجنبی ہے۔ جو لیت کوئی بھی نہیں لیکن فلسطینی ہے۔ وہ ایسا کیوں سوچتا ہے کہ وہ زندہ خدا کی فوج کے خلاف کہے۔”

27 اِسرائیلیوں نے داؤد سے انعام کے متعلق کہا کہ جو آدمی جولیت کو ماریگا وہ انعام پائے گا۔ 28 داؤد کے بڑے بھا ئی الیاب نے سُنا کہ داؤد سپاہیوں سے باتیں کر رہا ہے۔ الیاب داؤد پر غصّہ ہوا۔ اور اُس سے پو چھا ، “تم یہاں کیوں آئے ہو ؟ کچھ بھیڑوں کو تم نے صحرا میں کس کے ساتھ چھو ڑا ہے ؟ میں جانتا ہوں تم یہاں کس منصوبے سے آئے ہو۔ تم نے وہ کرنا نہیں چاہا جو تمہیں کر نے کو کہا گیا تھا میں جانتا ہوں کہ تمہارا دل کتنا شریر ہے ! تم یہاں صرف جنگ کا نظارہ کرنے آئے ہو۔”

29 داؤد نے کہا ، “ایسا میں نے کیا کیا ؟” میں نے کوئی غلطی نہیں کی میں صرف باتیں کر رہا تھا۔” 30 داؤد چند دوسرے لوگوں کی طرف پلٹا اور ان سے وہی سوال کیا ؟ انہوں نے داؤد کو وہی پہلے کی طرح جوابات دیئے

31 جو باتیں داؤد نے کہا تھا کچھ آدمیوں نے سن لیا تھا اور اسکی اطلاع ساؤل کو کردی گئی تھی تب ساؤل نے داؤد کو بلا بھیجا۔ 32 داؤد نے ساؤل سے کہا ، “اس آدمی کی وجہ سے کسی کی ہمت پست نہ ہونے دو۔ میں تمہارا خادم ہوں ، کیا میں جاؤنگا اور اس فلسطینی کے خلاف لڑوں گا ؟

33 ساؤل نے جواب دیا ، “ تم باہر نہیں جا سکتے اور فلسطینی ( جولیت ) سے نہیں لڑ سکتے۔ تم تو صرف ایک لڑ کا ہو اور جو لیت جب بچہ تھا تب سے جنگیں لڑ تا رہا ہے۔”

34 لیکن داؤد نے ساؤل کو کہا ، “میں ! آپکا خادم اپنے باپ کے بھیڑوں کی رکھوالی کر رہا تھا۔ ایک بار ایک شیر اور ایک ریچھ نے میرے بھیڑوں پر حملہ کیا جھنڈ میں سے ایک بھیڑ کو لے گیا۔ 35 میں نے ان جنگلی جانوروں کا پیچھا کیا میں نے ان پر حملہ کیا اور اُن کے منھ سے بھیڑ کو لے لیا۔ وہ جنگلی جانور مجھ پر حملہ آور ہوا لیکن میں نے اسکی گردن کے نیچے پکڑا اور اُسکو مار ڈا لا۔ 36 اگر میں ایک شیر اور ایک ریچھ دونوں کو مارنے کے قابل ہوں تو یقیناً ہی اس اجنبی جو لیت کو بھی مارنے کے قابل ہوں۔ جولیت مارا جائے گا کیوں کے اس نے زندہ خدا کی فوج کا مذاق اُڑا یا ہے۔ 37 تب داؤد نے کہا ، “خدا وند نے مجھے شیر اور ریچھ سے بچا یا اور وہی ایک ہے جو مجھے اس فلسطینی سے بچائے گا۔

ساؤل نے داؤد سے کہا ، “ جاؤ! خدا وند تمہارے ساتھ ہو۔” 38 ساؤل نے اپنا کپڑا داؤد پر ڈا لا ساؤل نے کانسے کا ٹوپ داؤد کے سر پر رکھا اور زرّہ بکتر اس کے جسم پر پہنایا۔ 39 تب داؤد نے اپنی تلوار اپنے زرہ بکتر کے اوپر باندھا۔ تب وہ چلنے کی کوشش کی لیکن اس نے اسے کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔

داؤد نے ساؤل سے کہا ، “میں ان چیزوں کے ساتھ چل نہیں سکتا کیوں کہ میں ان کو کبھی استعمال نہیں کیا ہوں۔” تب داؤد نے ان سب چیزوں کو نکال دیا۔ 40 داؤد نے اپنی چھڑی ہا تھوں میں لی ندی سے اس نے پانچ چکنے پتھر چُنے اور اسے اپنے چرواہی کے تھیلا میں رکھا۔ غلیل کو ہاتھ میں رکھ لیا اور پھر وہ فلسطینی کے پاس پہونچا۔

داؤد کا جولیت کو مار ڈا لنا

41 فلسطینی ( جولیت ) دھیرے دھیرے داؤ دکے قریب آتا گیا۔ جو لیت کے مددگار اس کے سامنے ڈھال لئے چل رہے تھے۔ 42 جولیت نے داؤد کو دیکھا اور ہنسا۔ جولیت نے دیکھا کہ داؤد ایک خوبصورت سرخ چہرہ والا لڑ کا ہے۔ 43 جو لیت نے داؤد سے کہا ، “یہ چھڑی کس لئے لے جا رہے ہو؟ کیا تم ایک کتے کی طرح میرا پیچھا کر نے آئے ہو ؟” تب جولیت نے اپنے دیوتاؤں کا نام لے کر اس پر لعنت کیا۔ 44 جو لیت نے داؤد سے کہا ، “ یہاں آؤ ! ا تاکہ میں تمہا رے جسم کو ٹکڑوں میں پھا ڑ سکوں جو جنگلی جانوروں اور پرندوں کے لئے خوراک ہو گی۔”

45 داؤد نے فلسطینی ( جو لیت) سے کہا ، “تم میرے پاس تلوار برچھا اور بھا لا کے ساتھ آئے ہو لیکن میں تمہا رے پاس اسرا ئیلی فوج کے خدا ، خداوند قادر مطلق کے نام پر آیا ہوں، جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو۔ 46 آج خداوند تم کو میرے ذریعہ شکست دے گا۔ میں تم کو مار ڈا لوں گا۔آج میں تمہا را سر کا ٹوں گا۔ تمہا رے جسم کو فلسطینی سپا ہیوں کی لاشوں کے ساتھ پرندوں اور جنگلی جانوروں کے سامنے انکی خوراک کے لئے رکھا جا ئیگا۔ تب پو ری دنیا جانے گی کہ اسرا ئیل میں ایک خدا ہے۔ 47 سب لوگ جو یہاں جمع ہیں جان لیں گے کہ خداوند کو لوگوں کو بچانے کے لئے تلواروں اور برچھوں کی ضرورت نہیں یہ جنگ خداوند کے متعلق ہے۔ اور خداوند تم سب فلسطینیوں کو شکست دینے کے لئے ہما ری مدد کرے گا۔”

48 اور جب فلسطینی داؤد پر حملہ کرنے اٹھا اور داؤد پر حملہ کرنے کے لئے اس کے پاس پہو نچا ، تو داؤد جو لیت سے ملنے جنگ کے میدان کی طرف تیزی سے دوڑا۔

49 داؤد اپنے تھیلے سے ایک پتھر لیا اور اس کو غُلیل میں رکھا اور اسے چلا دیا۔ پتھر غُلیل سے نکلا اور جو لیت کی پیشانی پر لگا۔ پتھر اس کے سر میں گھس گیا اور جو لیت اوندھے مُنہ زمین پر گر گیا۔

50 اس طرح داؤد نے فلسطینی کو صرف ایک غلیل اور ایک پتھر سے شکست دی۔ اس نے فلسطینی کو چوٹ ما را اور اس کا قتل کر ڈا لا۔ داؤد کے پاس تلوار نہ تھی۔ 51 اس لئے وہ دوڑا اور فلسطینی کے پیچھے کھڑا ہو ا۔ تب داؤد نے جو لیت ہی کی تلوار اسکی نیام سے لی اور جولیت کا سر کاٹ دیا اور اس طرح داؤد فلسطینی کو مار ڈا لا۔

جب دوسرے فلسطینیوں نے دیکھا کہ ان کا ہیرو مر گیا اور پلٹے اور بھا گے۔ 52 اسرا ئیل اور یہوداہ کے سپا ہی اپنی جنگ کا نعرہ لگا تے ہو ئے فلسطینیوں کا جات کی سر حد اور عقرون کے داخلہ تک پیچھا کئے۔ انہوں نے بہت سے فلسطینیوں کو مار ڈا لا۔ ان کی لاشیں شعریم کے سڑکوں سے لے کر جات اور عقرون تک بکھری پڑی تھیں۔ 53 فلسطینیوں کا پیچھا کرنے کے بعد اسرا ئیلی فلسطینی خیمہ میں واپس آئے اور کئی چیزوں کو خیمہ سے لے لیا۔

54 داؤد فلسطینی کے سر کو یروشلم لے گیا۔ داؤد نے فلسطینی کے ہتھیاروں کو اپنے خیمہ میں رکھا۔

ساؤل کا داؤد سے ڈرنا

55 ساؤل نے داؤد کو جولیت سے لڑنے کے لئے جا تے دیکھا تو ساؤل نے فوج کے سپہ سالا ر ا بنیر سے کہا ، “ابنیر اس نوجوان کا باپ کون ہے ؟ ” ابنیر نے جواب دیا ، “جناب میں قسم کھا کر کہتا ہوں میں نہیں جانتا۔”

56 بادشاہ ساؤل سے کہا ، “معلوم کرو کہ اس نوجوان کا باپ کو ن ہے ؟ ”

57 جب داؤد جو لیت کو مار کر واپس آیا۔ ابنیر اس کو ساؤل کے پاس لا یا۔ داؤد اب تک فلسطینی کا سر پکڑے ہو ئے ہی تھا۔

58 ساؤل نے اس کو پو چھا ، “نوجوان تمہا را باپ کون ہے ؟ ”

داؤد نے جواب دیا ، “میں تمہا رے خادم بیت ا للحم کے یسّی کا بیٹا ہوں۔

داؤد اور یونتن کی گہری دوستی

18 جب داؤد ساؤل سے اپنی باتیں ختم کی ، یونتن داؤد کا دوست ہو گیا۔ وہ داؤد کو اتنا چا ہتا جتنا کہ وہ اپنے آپ کو۔ ساؤ ل نے اس دن سے داؤد کو اپنے ساتھ رکھا۔ ساؤل نے داؤد کواس کے باپ کے پاس واپس گھر جانے نہ دیا۔ یُونتن داؤد کو بہت چاہتا تھا۔ یونتن نے داؤد سے ایک معاہدہ کیا۔ یونتن نے اپنا کو ٹ جو پہنے ہو ئے تھے داؤد کو دیا۔ وہ اس کو اپنی وردی بھی دے دی۔ یونتن نے اس کو اپنی کمان ، تلوار اور اپنا کمر بند بھی دے دیئے۔

ساؤل کا داؤد کی کامیابی پر غور کرنا

ساؤل نے داؤد کو لڑنے کے لئے مختلف جنگوں پر بھیجا۔ اور داؤد بہت ہی کامیاب رہا تب ساؤل نے داؤد کو سپا ہیو ں کا نگراں کا ر بنا دیا۔ ا س سے سبھی خوش ہو ئے حتیٰ کہ ساؤل کے افسران بھی۔ داؤد فلسطینیوں کے خلاف لڑنے کے لئے باہر جا ئے گا۔ جنگ کے بعد گھر واپسی پر اسرا ئیل کے شہر کی عورتیں داؤد سے ملنے آئیں گی۔ وہ ہنستی ، ناچتی یا باجے اور بانسری بجاتی انہوں نے یہ سب ساؤل کے سامنے کیا۔ خوشیاں مناتے ہو ئے عورتوں نے گانا گایا ،

“ساؤل نے ہزاروں دشمنوں کو مار ڈا لا۔
    لیکن داؤد نے لا کھوں کو مار دیا۔”

عورتوں کے گانے سے ساؤل پریشان ہوا اور وہ بہت غصّہ میں آیا۔ ساؤل نے سوچا ، “عورتیں کہتی ہیں داؤد نے لا کھوں دشمنوں کو ماردیا اور وہ کہتی ہیں میں صرف ہزار دشمنوں کو ہی مار ا ہوں۔ اور اس کو صرف بادشاہت کی کمی ہے۔” اس لئے اس وقت سے ساؤل نے داؤد کو نفرت اور حسد کی نگاہ سے دیکھا۔

ساؤل کا داؤد سے ڈ رنا

10 دوسرے دن خدا کی طرف سے ایک بدروح نے ساؤل کو قابو کیا۔ وہ اپنے گھر میں وحشی ہو گیا۔ داؤد نے بر بط بجایا جیسا انہوں نے پہلے بجا یا تھا۔ اس وقت ساؤل کے ہا تھوں میں برچھا تھا۔ 11 ساؤل نے سو چا ، “میں بھا لا سے داؤد کو دیوار میں چپکا دو ں گا۔” ساؤل نے دو دفعہ داؤد پر بھا لا پھینکا لیکن داؤد دونوں دفعہ بچ گیا۔

12 ساؤل داؤد سے ڈرا ہوا تھا۔ کیوں کہ خداوند داؤد کے ساتھ تھا اور خداوند نے ساؤل کا ساتھ چھو ڑدیا تھا۔ 13 ساؤل نے داؤد کو اپنے پاس سے دور بھیج دیا۔ ساؤل نے داؤد کو ۰۰۰،۱ سپا ہیوں کا سردار بنا یا۔ داؤد نے جنگ میں سپا ہیوں کی سرداری کی۔ 14 خداوند داؤد کے ساتھ تھا۔ اس لئے داؤد ہر چیز میں کامیاب ہوا۔ 15 ساؤ ل نے دیکھا کہ داؤد بہت ہی کامیاب ہے تو ساؤل داؤد سے بہت ہی زیادہ خو فزدہ ہوا۔ 16 لیکن اسرا ئیل اور یہوداہ کے تمام لوگ داؤد کو چاہنے لگے۔ وہ اس کو اس لئے چاہتے تھے کہ وہ جنگو ں میں ان کی رہنما ئی کرتا تھا اور ان کے لئے لڑتا تھا۔

ساؤ ل کا اپنی بیٹی کی داؤد سے شادی کا خیال

17 ساؤل نے داؤد سے کہا، “یہاں میری بڑی بیٹی میرب ہے میں اسے تمہا ری بیوی ہو نے کے لئے دینا چاہتا ہوں۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ تم میرے جنگجو رہو اور میرے لئے خداوند کی جنگیں لڑو۔” یہ ایک چال تھی جو ساؤل نے بنا ئی تھی۔ اس طرح اس نے سوچا ، “میں داؤد کو نہیں ماروں گا۔ میں فلسطینیوں سے اس کو مروادوں گا۔”

18 لیکن داؤد نے کہا ، “میں نہ تو کو ئی اہم خاندان سے ہوں اور نہ ہی میں کو ئی اہم آدمی ہوں میری ہستی بادشاہ کی لڑ کی سے شادی کرنے کی نہیں ہے۔”

19 اس وقت جب ساؤل کی بیٹی کی شادی داؤد سے ہو نی تھی تب ساؤل نے خود سے اس کی شادی محول کے عدری ایل سے کردی۔

20 ساؤل کی دوسری لڑکی میکل داؤد سے محبت کرتی تھی۔ لوگوں نے ساؤل سے کہا کہ میکل داؤد کو چا ہتی ہے۔اس سے ساؤل خوش ہوا۔ 21 ساؤل نے سوچا ، “میں میکل کے ذریعہ ساؤل کو پھانسوں گا۔ میں میکل کو داؤد سے شادی کرنے دو ں گا اور تب میں فلسطینیوں کو اسے مارنے دو ں گا۔” اس لئے ساؤل نے داؤد سے دوسری بار کہا ، “تم میری بیٹی سے آج شادی کر سکتے ہو۔”

22 ساؤل نے اپنے افسروں کو حکم دیا ساؤل نے انہیں کہا ، “داؤد سے تنہا ئی میں بات کرو۔ اس سے کہو ، دیکھو ! بادشاہ تمہیں چاہتا ہے اس کے افسر تمہیں چاہتے ہیں تمہیں اس کی لڑکی سے شادی کرنی چا ہئے۔”

23 ساؤل کے افسروں نے داؤد سے یہ سب باتیں کہیں لیکن داؤد نے جواب دیا ، “کیا تم سمجھتے ہو کہ بادشاہ کا داماد بننا آسان ہے ؟” میں ایک غریب آدمی ہوں اور میں ایک اونچا مرتبہ کا آدمی نہیں ہوں۔”

24 ساؤل کے افسروں نے ساؤل سے جو کچھ داؤد نے کہا تھا کہہ دیا۔ 25 ساؤل نے اُن سے کہا ، “داؤد سے یہ کہو کہ اے داؤد بادشاہ نہیں چاہتا کہ تم اس کی بیٹی کیلئے رقم ادا کرو۔ ساؤل اپنے دشمنوں سے بدلہ لینا چا ہتا ہے۔ اس لئے اس کی بیٹی سے شادی کرنے کی قیمت ۱۰۰ فلسطینیوں کی چمڑیاں ہیں۔ یہ ساؤل کا خفیہ منصوبہ تھا۔ ساؤل سمجھا کہ فلسطینی داؤد کو مار دیں گے۔”

26 ساؤل کے افسروں نے وہ باتیں داؤد سے کہیں۔داؤد خوش ہوا کہ اس کو بادشاہ کا داماد بننے کا موقع ملا ہے۔ اس لئے اس نے جلد ہی کچھ کر دکھا یا۔ 27 داؤد اور اس کے آدمی فلسطینیوں سے لڑنے باہر گئے۔ انہوں نے ۲۰۰ فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ داؤد نے ان فلسطینیوں کی چمڑی کو لا یا اور پورے کا پو را بادشاہ کو دیدیا جیسا کہ ضرورت تھی ، تا کہ وہ بادشاہ کا داماد بن سکے۔

ساؤل نے داؤد کو اپنی بیٹی میکل سے شادی کرنے دی۔ 28 ساؤل نے دیکھا کہ خداوند داؤد کے ساتھ ہے۔ ساؤل نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی بیٹی میکل داؤد سے محبت کرتی ہے۔ 29 اس لئے ساؤل داؤد سے اور زیادہ ڈرگیا۔ساؤل ہر وقت داؤد کے خلاف رہنے لگا۔

30 فلسطینی سپہ سالا ر باہر جاکر اسرا ئیلیوں سے لڑنا شروع کئے۔ لیکن ہر وقت داؤد نے انہیں شکست دی۔داؤد ساؤل کا بہترین افسر تھا۔ داؤد مشہور ہوا۔

یونتن کی داؤد کو مدد

19 ساؤل نے اپنے بیٹے یونتن اور اس کے افسروں سے کہا کہ داؤد کو مار ڈا لے۔ لیکن یونتن داؤد کو بہت چاہتا تھا۔ 2-3 یونتن نے داؤد کو خبردار کیا ، “ہوشیار رہو ! ساؤل موقع دیکھ رہا ہے کہ تمہیں مار ڈا لے۔ صبح میں کھیت میں جا کر چھپ جا ؤ۔ میں اپنے باپ کو کھیت میں لاؤں گا۔ ہم وہاں کھڑے رہیں گے جہاں تم چھپے رہو گے۔ میں اپنے باپ سے تمہا رے متعلق بات کروں گا تب میں جو اپنے باپ سے سنوں گا وہ تمہیں کہوں گا۔”

یونتن نے اپنے باپ ساؤل سے داؤد کے بارے میں بات کی۔ اس نے داؤد کے متعلق اچھی باتیں کہیں۔ وہ اپنے باپ سے بولا آپ بادشا ہ ہیں اور داؤد آپ کا خادم ، داؤد نے آپ کے ساتھ کو ئی بُرائی نہیں کی۔ اس لئے اس کے ساتھ آپ بھی کچھ بُرا نہ کریں۔ وہ آپ کیلئے کچھ بُرا نہیں کیا دراصل وہ جو بھی کیا وہ آپ کیلئے بہت فائدہ مند رہا۔ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈا ل کر داؤد نے اس فلسطینی ( جولیت ) کو مار ڈا لا۔ تب خداوند نے تمام اسرا ئیل کے لئے عظیم فتح دی۔ آپ نے دیکھا اور خوش ہو ئے۔ آپ کیوں داؤد کو ضرر پہنچانا چا ہتے ہیں ؟ ایک معصوم آدمی کو مار کر آپ کیوں گناہ کرنا چا ہتے ہیں ؟ اس کو مارنے کی کو ئی وجہ نہیں ہے آپ پھر اسے کیوں مارنا چا ہتے ہیں ؟

ساؤل نے یونتن کی باتیں سنیں۔ساؤل نے وعدہ کیا۔ ساؤل نے کہا، “خداوند کی حیات کی قسم داؤد نہیں مارا جا ئے گا۔”

اس لئے یونتن نے داؤد کو پکا را اور ہر چیز اس سے کہا جو کہی گئی تھی۔ تب یونتن نے داؤد کو ساؤل کے پاس لا یا اور داؤد پہلے کی طرح ساؤل کے پاس رہا۔

داؤد کو مارڈالنے کی ساؤل کی دوبارہ کوشش

اور پھر سے جنگ شروع ہو ئی اور داؤد فلسطینیوں سے لڑنے کے لئے باہر گیا۔ اس نے ان لوگوں کو شکست دی اور وہ لوگ وہاں سے بھا گ گئے۔ لیکن اب بدروح خداوند کی طرف سے ساؤل پر آئی۔ ساؤل اپنے گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔ ساؤل کے ہا تھ میں بھا لا تھا۔ داؤد بر بط بجا رہاتھا۔ 10 ساؤل نے بھا لا داؤد کے جسم پر پھینکنے کی کو شش کی لیکن داؤد راستے سے اچک پڑا۔ بھا لا داؤد سے ہٹ کر دیوار میں گھس گیا اسی رات داؤد بھا گ گئے۔

11 ساؤل نے آدمیوں کو داؤد کے گھر بھیجا۔ آدمیوں نے داؤد کے گھر کی نگرانی کی وہ وہاں ساری رات ٹھہرے رہے۔ وہ داؤد کو صبح مار ڈالنے کے انتظار میں تھے۔ لیکن داؤد کی بیوی میکل نے اس کو ہوشیار کیا۔اس نے کہا ، “تمہیں آج کی رات بھا گ جاناچا ہئے اپنی زندگی بچا لو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو کل تم مار دیئے جا ؤ گے۔” 12 تب میکل نے داؤد کو کھڑکی سے باہر جانے دیا۔ داؤد بھا گ کر فرار ہو گیا۔ 13 میکل نے گھریلو دیوتا کو لیا اور اسے بستر پر رکھا تب اس نے اس کو لباسوں سے ڈھک دیا۔ اس نے بکری کے بالوں کو بھی لیا اور اس کے سر پر رکھی۔

14 ساؤل نے قاصدوں کو بھیجا کہ داؤد کو قیدی بنا لے لیکن میکل نے کہا ، “داؤد بیمار ہے۔

15 آدمیوں نے واپس ساؤل کے پاس جا کر اس کی اطلاع دی ، لیکن اس نے قاصدوں کو واپس بھیجا کہ داؤد کو دیکھے۔انہوں نے ان لوگوں کو یہ حکم بھی دیا ، “داؤد کو میرے پاس لا ؤ۔ اگر وہ بستر پر بھی پڑا ہو ا ہو تو بھی اسے لا ؤ تا کہ میں اسے مار سکوں۔”

16 قاصد داؤد کے گھر گئے وہ گھر کے اندر داؤد کو لینے گئے۔ لیکن وہ لوگ تعجب میں پڑ گئے جب ان لوگوں نے ایک مجسمہ کو دیکھا جس کا بال بکری کا تھا۔

17 ساؤ ل نے میکل سے پو چھا ، “تم نے میرے ساتھ اس طرح دغا کیوں کی ؟ ” تم میرے دشمن کو فرار کرنے کی ذمہ دار ہو۔

میکل نے ساؤ ل کو جواب دیا ، “اس نے خود مجھے یہ کہہ کر دھمکی دی کہ اگر تو مجھے نہیں جانے دی تو میں تجھے مار ڈا لو ں گا۔”

داؤد کا را مہ خیمہ پر جانا

18 جس وقت داؤد وہاں سے بھا گا اور سموئیل کے پاس رامہ گیا۔داؤد نے سموئیل سے ہر وہ بات کہی جو ساؤ ل نے اس کے ساتھ کی وہ لوگ ایک ساتھ نیوت گئے اور وہا ں ٹھہرے۔

19 ساؤل نے سنا کہ داؤد رامہ کے قریب نیوت میں ہے۔ 20 ساؤل نے آدمیوں کو داؤد کو گرفتار کرنے کو بھیجا۔ جب وہ لوگ وہاں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ سبھی نبی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں۔ سموئیل گروہ کی رہنما ئی کرتا وہاں کھڑا تھا۔ خدا کی طرف سے رُوح ساؤل کے قاصدوں پر آئی اور وہ لوگ پیشین گوئیاں کرنا شروع کیں۔

21 ساؤ ل نے اس کے متعلق سنا اور وہ دوسرے قاصدوں کو بھیجا لیکن انہوں نے بھی پیشین گوئی کرنی شروع کیں۔ اس لئے ساؤل نے تیسری مرتبہ قاصدوں کو بھیجا اور انہوں نے بھی پیشین گوئی کرنی شروع کیں۔ 22 آ خرکار ساؤ ل خود رامہ گیا۔ساؤل سیخوں میں کھلیان سے ہو تے ہو ئے بڑے کنویں کے پاس آیا۔ ساؤل نے پو چھا ، “سموئیل اور داؤد کہا ں ہیں؟”

لوگوں نے جواب دیا ، “رامہ کے قریب نیوت میں ہیں۔”

23 تب ساؤل رامہ کے قریب نیوت کو گیا۔ خدا کی روح ساؤل پر آئی اس نے بھی پیشین گوئی کرنی شروع کی۔ساؤل اور رامہ کے قریب نیوت پہنچنے تک سارے راستے میں پیشین گوئی کی۔ 24 تب ساؤل اپنے کپڑے اُتار دیئے۔ ساؤل پو را دن اور پوری رات ننگا رہا۔ا س طرح سے ساؤل بھی سموئیل کے سامنے میں پیشین گوئی کر رہا تھا۔

اس لئے لوگوں نے پو چھا ، “کیا ساؤل بھی نبیوں میں سے ایک ہے ؟”

داؤد اور یونتن کا معاہدہ

20 داؤد رامہ کے قریب نیوت سے بھا گ گیا۔ داؤد یونتن کے پاس گیا اور اس کو پو چھا ، “میں نے کیا غلطی کی ہے ؟ میرا گناہ کیا ہے ؟ تمہا را باپ مجھے کیوں مارڈالنے کی کو شش کر رہا ہے ؟”

یونتن نے جواب دیا ، “یہ سچ نہیں ہو سکتا میرا باپ تمہیں مارڈالنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔ وہ مجھ سے کہے بغیر کچھ نہیں کرتا ہے وہ بہت اہم یا چھو ٹی بات ہی کیوں نہ ہو میرا باپ ہمیشہ مجھ سے کہے گا۔ وہ مجھے کیوں نہیں کہے گا کہ وہ تم کو مار ڈالنا چا ہتا ہے۔ نہیں یہ سچ نہیں ہے۔”

لیکن داؤد نے جواب دیا ، “تمہا را باپ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تمہا را دوست ہوں۔ تمہا رے باپ نے اپنے آپ سے کہا ، ’ یونتن کو اس کے متعلق نہیں معلوم ہونا چا ہئے ، اگر وہ یہ جان جا ئے تو وہ پریشان ہو جا ئے گا۔‘ لیکن خداوند کی حیات اور تیری جان کی قسم کہ میرے اور موت کے بیچ صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے۔”

یونتن نے داؤد سے کہا ، “تم مجھ سے جو کرنے کو کہو گے میں ہر وہ چیز کرونگا۔”

تب داؤد نے کہا ، “دیکھو کل نئے چاند کی تقریب ہے اور مجھے بادشاہ کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔ لیکن مجھے جانے دو اور دوسرے دن شام تک کھیت میں چھپے رہنے دو۔ اگر تمہا را باپ غور کرے کہ میں چلا گیا ہوں تو ان سے کہو کہ داؤد نے مجھ سے سنجیدگی سے کہا تھا کہ اسے بیت ا للحم اپنے شہر کو بھاگ جانے دو۔ جیسا کہ ان کا خاندان قربانی کی سالانہ تقریب میں مصروف ہے۔ اگر تمہا را باپ کہتا ہے بہت اچھا تو میں محفوظ ہوں لیکن اگر وہ بہت غصّہ میں آئے تو تم جان لینا کہ وہ مجھے مارنا چا ہتا ہے۔ یونتن میرے ساتھ مہربان رہو تم نے مجھ سے خداوند کے سامنے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اگر میں قصوروار ہوں ، تب تم خود مجھے مارڈالنا لیکن تم مجھے اپنے باپ کے پاس مت لے جا ؤ۔”

یونتن نے جواب دیا ، “نہیں میں وہ نہیں کروں گا اگر مجھے معلوم ہوا کہ میرا باپ تمہیں مارنا چا ہتا ہے تو میں یقیناً تمہیں ہو شیار کروں گا۔”

10 داؤد نے کہا ، “اگر تمہا را باپ تمہیں سخت جواب دیتا ہے مجھے کون خبردار کرے گا ؟ ”

11 تب یونتن نے کہا ، “آؤ ہم باہر اس کھیت میں جا ئیں۔” اس لئے یونتن اور داؤد دونوں مل کر کھیت میں گئے۔

12 یونتن نے داؤد سے کہا ، “میں خداوند اسرا ئیل کے خدا کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے باپ کے منصوبے کے بارے میں تین دن کے اندر پتہ لگا ؤں گا۔ اگر ان کا منصوبہ تمہا رے لئے اچھا ہے تو میں فوراً ہی تمہیں معلوم کراؤں گا۔ 13 اگر میرا باپ تمہیں تکلیف دینا چا ہتا ہے تو میں تمہیں واقف کراؤں گا اور میں تم کو یہاں سے حفاظت سے جانے دوں گا اگر میں ایسا نہ کروں تو خداوند مجھے اس کا بدلہ دے۔ خداوند تمہا رے ساتھ رہے جیسے وہ میرے باپ کے ساتھ رہا تھا۔ 14 مجھ پر مہربان رہو جب تک میں رہوں اور میرے مرنے کے بعد بھی۔ 15 میرے خاندان پر مہربانی رکھنا بند مت کر۔ جب خداوند زمین پر تمہا رے سبھی دشمنوں کو تباہ کرنے میں تمہا ری مدد کرتا ہے۔ 16 اسلئے یونتن نے یہ کہتے ہو ئے داؤد کے خاندان کے ساتھ عہد کیا : خداوند داؤد کے دشمنوں کو سزا دے۔”

17 تب یونتن نے داؤد سے اس کی محبت کے معاہدے کو دہرانے کے لئے کہا۔ یونتن نے ایسا اسلئے کیا کیوں کہ وہ داؤد کو اتنا چا ہتا تھا جتنا کہ خود کو۔

18 یونتن نے داؤد سے کہا ، “کل نئے چاند کی تقریب ہے میرا باپ اس طرف غور کرے گا کہ تم چلے گئے ہو کیونکہ تمہا ری نشست خالی ہو گی۔ 19 تیسرے دن اسی جگہ پر جا ؤ جہاں تم پہلے چھپے تھے جب یہ مصیبت شروع ہو ئی تھی اور اس پہا ڑی کے بغل میں انتظار کرو۔ 20 تیسرے دن میں اس پہا ڑی پر ایسے جاؤں گا جیسے میں کسی کو نشانہ بنا رہا ہو ں۔ میں تین تیر چلاؤں گا۔ 21 تب میں لڑکے کو کہوں گا کہ جاکر تیرو ں کو دیکھے۔ اگر ہر چیز ٹھیک ہے، تب میں لڑکے کو صاف طور سے کہوں گا دیکھو تیر تمہا رے آگے ہے۔ جا ؤ اور اسے لے آؤ۔ اگر میں ایسا کہوں توتم چھپنے کی جگہ سے باہر آسکتے ہو کیونکہ کو ئی خطرہ نہیں ہے۔ اور میں خداوند کی حیات کی قسم کھا کر وعدہ کرتا ہوں کہ تم یقیناً محفوظ ہو۔ 22 لیکن اگر مصیبت ہے تو میں لڑکے سے کہوں گا تیر بہت دور ہے جا ؤ انہیں لا ؤ۔ میں ایسا کہوں تو تمہیں وہاں سے نکل جانا چا ہئے خداوند تمہیں دور بھیج رہا ہے۔ 23 اور جہاں تک ہمارے معاہدہ کا تعلق ہے جو ہم لوگوں نے کیا یادرکھو خداوند ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کا گواہ ہے۔”

24 تب د اؤد کھیت میں چھُپ گیا۔

تقریب کے موقع پر ساؤل کا برتاؤ

نئے چاند کی تقریب کا وقت آیا اور بادشاہ کھانے کیلئے بیٹھا۔ 25 بادشاہ دیوار کے پاس بیٹھا کرتا تھا۔ یونتن ساؤل کے دوسری طرف بیٹھا۔ ابنیر ساؤ ل کے بعد بیٹھا لیکن داؤد کی جگہ خالی تھی۔ 26 اس دن ساؤل نے کچھ نہ کہا ، “کیونکہ وہ سوچا !داؤد کے ساتھ ضرور کچھ ہوا ہے جس سے وہ ناپاک [b] ہو گیا ہے۔غالباً وہ ناپاک ہے۔”

27 اگلے دن مہینے کے دوسرے دن دوبارہ داؤد کی جگہ خالی تھی۔ تب ساؤل نے اس کے بیٹے یونتن سے کہا ، “یسی کا بیٹا نئے چاند کی تقریب میں کل اور آج کیوں نہیں آیا ؟”

28 یونتن نے جواب دیا ، “داؤد نے سنجیدگی سے مجھ سے بیت اللحم جانے کیلئے میری اجازت مانگی۔ 29 داؤد نے کہا ، “مجھے جانے دو میرا خاندان بیت ا للحم میں قربانی نذر کر رہا ہے اور میرے بھا ئی نے مجھے وہاں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اب اگر میں تمہا را دوست ہوں تو مجھے جانے دو اور بھائیوں سے ملنے دو۔‘ یہی وجہ ہے کہ وہ بادشاہ کی تقریب میں حاضر نہ ہوا۔

30 ساؤل یونتن پر بہت غصہ کیا اس نے یونتن سے کہا ، “تم ایک لونڈی کے بیٹے جو میرے حکم کی فرمانبرداری سے انکار کرتے ہو اور تم ٹھیک اسی کی طرح ہو۔ میں جانتا ہو کہ تم یسی کا بیٹا داؤد کی طرف ہو۔ تم اپنی ماں اور اپنے لئے ذلّت کا باعث ہو۔ 31 جب تک یسی کا بیٹا زندہ رہے گا تب تم نہ بادشاہ بنوگے اور نہ ہی تمہا ری بادشاہت ہو گی۔ داؤد کو ہمارے پاس لا ؤ کیونکہ اسے ضرور مار ڈالنا چا ہئے !”

32 یونتن نے اپنے باپ سے پو چھا ، “داؤد کو کیوں مارڈالنا چا ہئے ؟ اس نے کیا غلطی کی ہے ؟”

33 لیکن ساؤ ل نے اپنا بھا لا یونتن پر پھینکا اور اس کو مار ڈالنے کی کوشش کی۔ تب یونتن جان گیا کہ اس کا باپ داؤد کو ہر طرح سے مارڈالنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ 34 یونتن بہت غصہ میں آکر کھانے کے میز سے اٹھ گیا۔ نئے چاند کی تقریب کے دوسرے دن وہ کچھ نہیں کھایا۔ وہ غصہ میں تھا کیوں کہ ساؤل نے اسے ذلیل کیا اور کیو نکہ ساؤ ل داؤد کو مارنا چا ہتا تھا۔

داؤد اور یونتن کی جدا ئی

35 دوسری صبح یونتن باہر کھیت کو گیا جیسا انہوں نے طئے کیا تھا۔ یونتن اپنے ساتھ ایک چھو ٹے لڑکے کو لا یا۔ 36 یونتن نے لڑکے سے بولا ، “بھا گو۔ تیروں کو تلاش کرو جو میں نے چلا ئے۔” لڑکے نے اسے کھوجنے کے لئے بھاگنا شروع کیا اور اسی دوران یونتن نے بچے کے سر کے اوپر تیر چلا یا۔ 37 لڑکا بھاگ کر اس جگہ گیا جہاں تیر پڑے تھے۔ لیکن یونتن نے اسے بلا یا اور کہا ، “تیر تو بہت دور ہے۔” 38 تب یونتن چلا یا جلدی کرو جا ؤ اور انہیں لا ؤ یہاں کھڑے مت رہو لڑکا تیر اٹھا یا اور واپس اپنے مالک کے پاس لا یا۔ 39 لڑکے کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کیا ہوا ؟ صرف یونتن اور داؤد ہی جان گئے۔ 40 یونتن نے اپنی کمان اور تیر لڑکے کو دیئے تب یونتن نے لڑکے کو کہا ، “واپس شہر جا ؤ۔”

41 جب لڑکا نکل گیا تو داؤد پتھر کے ڈھیر کے نیچے سے باہر آیا۔ داؤد نے زمین تک اپنے سر کو جھکاتے ہو ئے یونتن کو سلام کیا وہ اس طرح تین بار سلام کیا۔ تب داؤد یونتن گلے ملے اور ایک دوسرے کو چوُما۔ وہ دونوں ایک ساتھ رو ئے لیکن داؤد یونتن سے زیادہ رو یا۔

42 یونتن نے داؤد سے کہا ، “تم سلامتی سے جا سکتے ہو اس لئے کہ میں خداوند کانام لیکر دوستی کا عہد کیا ہوں۔ ہم نے کہا تھا کہ خداوندہمیشہ کے لئے ہما ری اور ہماری نسلوں کے درمیان گواہ ہو گا۔ تب د اؤد چلا گیا اور یونتن واپس شہر آ گیا۔”

Footnotes

  1. اوّل سموئیل 17:25 اسرائیل میں آزاد رکھے گااس کا مطلب شاید کہ یہ خاندان بادشاہ کے محصول اور سخت کام سے مستثنیٰ رہے گا۔
  2. اوّل سموئیل 20:26 نا پاک یا “ نا قابل قبول ” خدا کی عبادت کے لائق نہیں۔

فلسطینیوں کا جنگ کی تیاری کرنا

28 بعدمیں فلسطینیوں نے اپنی فوجوں کو اسرا ئیل کے خلاف لڑنے کیلئے جمع کیا۔ اکیس نے داؤد سے کہا ، “کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہیں اور تمہا رے آدمیوں کو میرے ساتھ اسرا ئیل کے خلاف لڑنے کیلئے جانا چا ہئے ؟”

داؤد نے جواب دیا ، “یقیناً تب تم دیکھ سکتے ہو کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں!” اکیس نے کہا ، “اچھا ! میں تمہیں اپنا محافظ بناؤں گا تم ہمیشہ میرا بچا ؤ کرو گے۔”

ساؤ ل اور عورت عین دور میں

سموئیل مر گیا۔ سبھی اسرا ئیلیوں نے سموئیل کی مو ت پر غم کا ا ظہار کیا۔ انہوں نے سموئیل کو اس کے شہر رامہ میں دفن کیا۔

پہلے ساؤل نے مُردہ روحوں سے رابطہ رکھنے وا لوں اور قسمت کا حال بتانے وا لوں کو اسرا ئیل چھوڑ نے پر مجبور کیا۔ فلسطینی جنگ کے لئے تیار ہو ئے۔ وہ شُو نیم آئے اور اس جگہ ان کا خیمہ بنا یا ساؤل نے تمام اسرا ئیلیوں کو جمع کیا اور جلبوعہ میں خیمہ بنا یا۔ ساؤ ل نے فلسطینی فوج کو دیکھا اور وہ ڈرگیا اس کا دل شدید طریقے سے کانپ اٹھا۔ سا ؤل نے خداوندسے دعا کی لیکن خداوند نے سنا نہیں۔ خدا نے ساؤل سے خواب میں بات نہیں کی۔ خدانے اس کو جواب دینے کے لئے اوریم [a] کو استعمال نہیں کیا۔ اور خدا نے نبیوں کو ساؤل سے بات کرنے کیلئے استعمال نہیں کیا۔ آخر کا ر ساؤل نے اپنے افسروں سے کہا ، “میرے لئے ایک عورت دیکھو جو مُردوں کی روحوں سے رابطہ رکھے۔ تا کہ میں جا کر اس سے پو چھوں کہ اس جنگ کا نتیجہ کیا ہو گا ؟”

اس کے افسروں نے جواب دیا ، “وہاں عین دور شہر میں ایک ایسی ہی عورت ہے۔”

ساؤل معمولی آدمی کے کپڑے پہن کر خود کا بھیس بدل دیا۔ اس رات ساؤل اور اس کے دو آدمی اس عورت کو دیکھنے گئے۔ ساؤ ل نے عورت سے کہا ، “تم مجھے ضرور رُوحوں کے ذریعہ مستقبل بتا ؤ۔ تم اس آدمی کے پریت ( بھوت ) کو بُلا ؤ۔ جس کا میں نام دوں۔”

لیکن عورت نے ساؤل سے کہا ، “تم جانتے ہو ساؤل نے کیا کیا اس نے تمام عورتوں پر زبردستی کی اور پیشین گوئی کرنے والوں پر زبردستی کی کہ اسرا ئیل کی سر زمین چھو ڑدیں۔ تم مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہے ہو اور مجھے مارنے کی۔ ”

10 ساؤل نے خداوند کے نام کو عورت سے عہد کرنے کے لئے استعمال کیا اس نے کہا ، “خداوند کی حیات کی قسم تمہیں یہ کرنے کی سزا نہیں دی جا ئے گی۔”

11 عورت نے پو چھا ، “تم کسے چاہتے ہو کہ میں تمہا رے لئے یہاں بُلا ؤں ؟”

ساؤ ل نے کہا ، “سموئیل کو میرے لئے بلا ؤ۔”

12 اور جب عورت نے سموئیل کو دیکھا تب چیخ ماری ، اور ساؤل سے کہا ، “تم نے مجھے دھوکہ دیا تم ساؤل ہو۔

13 بادشاہ نے کہا ، “ڈرو مت بلکہ مجھے کہو تم کیا دیکھتی ہو ؟” عورت نے کہا ، “ایک رو ح زمین سے باہر آرہی ہے۔”

14 ساؤل نے پو چھا ، “وہ کیسا دکھا ئی دیتا ہے ؟”

عورت نے جواب دیا ، “وہ ایک بوڑھا آدمی دکھا ئی پڑتا ہے جو ایک خاص لبادہ پہنے ہے۔”

تب ساؤل نے جانا کہ وہ سموئیل ہے ساؤل جھک گیا اس کا چہرہ زمین پر ٹِک گیا۔ 15 سموئیل نے ساؤل سے کہا ، “تم نے مجھے کیوں پریشان کیا تم مجھے اوپر کیوں لا ئے ؟”

ساؤل نے جواب دیا ، “میں مصیبت میں ہوں۔ فلسطینی میرے خلاف لڑنے آئے ہیں اور خدا نے مجھے چھو ڑدیا ہے خدا میری نہیں سنتا ہے وہ نبیوں یا خواب کے ذریعہ مجھے جواب نہیں دیتا ہے۔ اس لئے میں نے تمہیں پکا را۔ میں چاہتا ہوں کہ کیا کرنا ہے تم مجھے کہو۔”

16 سموئیل نے کہا ،“خدا وند نے تمہیں چھو ڑدیا اب وہ تمہارے پڑوسی ( داؤد) کے ساتھ ہے اس لئے تم مجھے کیوں پریشان کر رہے ہو۔ 17 خداوند ویسا ہی کر رہا ہے جیسا اس نے تمہا رے لئے میرے ذریعے اعلان کیا تھا۔ وہ تمہا ری بادشاہت کو تم سے چھین لیا اور اسے تمہا رے دوست داؤد کو دیا۔ 18 خداوندنے عما لیقی پر بہت غصّہ کیا۔ اور چا ہا کہ تم اسے تباہ کرو لیکن تم نے ا سکے حکم کی نا فرمانی کی۔ اسی لئے آج خداوند تمہا رے ساتھ ایسا کر رہا ہے۔ 19 خداوند فلسطینیوں کو تمہیں اور اسرا ئیلیوں کو شکست دینے کی اجازت دیگا۔ کل تم اور تمہا را بیٹا میرے ساتھ یہاں ہوگے۔”

20 ساؤل فوراً زمین پر گرا اور وہیں پڑا رہا۔ وہ سموئیل کے پیغام سے خوفزدہ تھا۔ وہ بہت کمزور بھی تھا کیو ں کہ اس نے تمام دن اور رات کچھ نہیں کھا یاتھا۔

21 جب عورت ساؤل کے پاس آئی اس نے دیکھا کہ وہ کتنا ڈرا ہوا ہے۔ اس نے اس سے کہا ، “دیکھو میں تمہا ری خادمہ ہوں میں تمہا ری اطاعت کی ہوں میں نے اپنی زندگی کو خطرے میں ڈا ل کر میں نے وہ کیا جو تم مجھ سے کروانا چا ہتے تھے۔ 22 اس لئے برا ئے مہربانی میری سنو اب مجھے تمہیں کچھ کھانے کے لئے دینے دو۔ تب تمہیں اپنی راہ پر چلنے کی طاقت آئے گی۔”

23 لیکن ساؤل نے انکار کیا اس نے کہا ، “میں نہیں کھانا چا ہتا ”

ساؤل کے افسران بھی عورت کے ساتھ ملکر اور اس سے درخواست کئے کہ کھائے آخر کار ساؤل نے ان کی بات سنی۔وہ فرش سے اٹھا اور بستر پر بیٹھا۔ 24 عورت کے پاس گھر پر ایک موٹا بچھڑا تھا اس نے جلدی سے اس بچھڑے کو ذبح کیا پھر اس نے کچھ آٹا لے کر گوندھا اور بغیر خمیر کی کچھ رو ٹیاں بنائیں۔ 25 عورت ساؤل اور اس کے افسروں کے سامنے کھانا لا ئی اور ان لوگوں نے کھانا کھا یا اور تب اسی رات وہ اٹھے اور چل پڑے۔

Footnotes

  1. اوّل سموئیل 28:6 اوریم کاہن خدا سے جواب پانے کے لئے پتھروں کو استعمال کرتے تھے۔ دیکھو شمار ۲۷: ۲۰۔۲۲

ساؤل کی موت

31 فلسطینی اسرائیل کے خلاف لڑے اور اسرائیلی فلسطین سے بھا گ گئے بہت سارے اسرائیلی کوہستان جلبوعہ پر مارے گئے۔ فلسطینی ساؤل اور اسکے بیٹوں سے بڑی بہادری سے لڑے۔ فلسطینیوں نے ساؤل کے بیٹوں یُونتن اور ابینداب اور ملکیشوع کو ماڈا لا۔

ساؤل کے چاروں طرف جنگ بہت سخت اور گھمسان ہو گئی۔ تیر اندازوں نے ساؤل پر تیر بر سائے اور وہ بری طرح زخمی ہوا۔ ساؤل نے اپنے خادم سے کہا جو کہ اس کا ہتھیار لا رہا تھا ، “اپنی تلوار لو اور مجھے مار دو تاکہ وہ غیر مختون مجھے چوٹ پہنچانے اور مذاق اڑانے نہ آئیں۔” اس کا ہتھیار لے جانے والا خادم ڈرا ہوا تھا اور اسکو مارنے سے انکار کر دیا۔ اس لئے ساؤل نے اپنی تلوار لے کر خود کو ہلا ک کر لیا۔

ہتھیار لے جانے والے نے دیکھا کہ ساؤل مر چکا ہے۔ اس لئے اس نے بھی اپنی تلوار سے خود کو ساؤل کے نزدیک مار ڈا لا۔ اس طرح ساؤل ، اسکے تین بیٹے ، اسکا ہتھیار لے جانے والا ، اور اس کے سبھی دوسرے آدمی اسی دن مر گئے۔

فلسطینیوں کا ساؤل کی موت سے خوش ہو نا

اسرائیلی جو یزرعیل وادی کے دوسری طرف اور یردن کے دوسری طرف رہتے تھے دیکھے کہ اسرائیلی فوج بھاگ رہی ہے اور انہوں نے جانا کہ ساؤل اور اسکے بیٹے مر گئے۔ تب وہ لوگ اپنے شہر چھو ڑ کر بھاگ گئے۔ تب فلسطینی آئے اور ان شہروں میں رہے۔

دوسرے دن فلسطینی مرے ہو ئے لوگوں کی چیزیں لینے واپس گئے۔ انہوں نے ساؤل اور اسکے تینوں بیٹوں کو کوہستان جلبوعہ پر مرا ہو ا پا یا۔ فلسطینیوں نے ساؤل کا سر کاٹ لیا اور اسکا زرہ بکتر لے لیا۔ فلسطینیوں نے خوشخبری کو اپنے بتوں کی ہیکلوں اور اپنے لوگوں کو کہنے کے لئے قاصدوں کو پورے ملک میں بھیجا۔ 10 انہوں نے ساؤل کی زرہ بکتر کو عستارات کی ہیکل میں رکھا۔ فلسطینیوں نے ساؤل کے جسم کو بھی بیت شان کی دیوار پر لٹکایا۔

11 یبیس جِلعاد کے لوگوں نے ان تمام کارناموں کے متعلق سنا جو فلسطینیوں نے ساؤل کے ساتھ کیا۔ 12 اس لئے یبیس کے تمام سپا ہی بیت شان گئے وہ ساری رات چلتے رہے۔ تب انہوں نے ساؤل کے جسم کو بیت شان کی دیوار سے اتارا۔ تب وہ ان لاشوں کو یبیس لے آئے وہاں یبیس کے لوگوں نے ساؤل اور اسکے تینوں بیٹوں کی لا شوں کو جلايا۔ 13 تب انہوں نے ساؤل اور اسکے بیٹوں کی ہڈیاں لیں اور انہیں یبیس میں درخت کے نیچے دفن کر دیا۔ تب یبیس کے لوگوں نے غم کا اظہار کیا وہ سات دنوں تک کھانا نہیں کھا ئے۔